تغیرات وتلونات کی اس دنیا میں ، جہاں
ہر چیز کا وجود اُس کی فنائیت کی دلیل، اور ہر شئی
کا ظہور اُس کے عدم کی علامت بن کر ابھر تا ہے ، چشم فلک نے ابتدائے آفرینش
سے لے کراب تک نہ معلوم کتنے انسانوں کو شکمِ مادر سے جنم لیتے اور ایک
مقررہ وقت پر ہمیشہ کے لیے پیوندِ خاک ہوتے دیکھا ہے، نہیں
کہا جاسکتا ہے کہ اب تک کتنے انسان پیدا ہوئے اور آئندہ قیامت تک کتنے
اور پیدا ہوں گے، بنی نوع انسان کا یہ ایک اَتھاہ سمندر
ہے جس کا تموج روز افزوں ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان اور جنات
کی تخلیق جس اہم اور پاکیزہ مقصد کے تحت ہوئی ہے، اس کی
تحصیل وتکمیل میں جو لوگ زندگی بھر حیراں وسرگرداں
اور آخری درجے کی کد وکاوش میں مصروف رہتے ہیں، انھیں
کو اس دنیا میں خالقِ کائنات کی طرف سے حیاتِ ابدی
حاصل ہوتی ہے، اُن کو اُن کی زندگی میں تو لوگ یاد
کرتے ہی ہیں، دارِ فانی سے دارِ باقی کی جانب کوچ
کرجانے کے بعدبھی اُنھیں یاد رکھا جاتا ہے، اور مرورِ ایام
کے ساتھ اس یاد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے؛ چناں چہ صدیاں
بیت جانے کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ گویا کل تک وہ زندہ تھے، یہ
سب ان کی صلاح ونیکی ، ورع وتقوی، تضرع وانابت، تواضع
وفنائیت ، اخلاص وللہیت اور مقصدِ حیات کی تحصیل میں
اُن کی طرف سے کی جانے والی جد وجہد کا غیر متخلف نتیجہ
ہوتا ہے۔
ولی کامل، نمونہٴ اسلاف ، تواضع وبے نفسی کے
امام،اخلاقِ نبوی کی چلتی پھرتی تصویر، رہبرِ قوم
وملت، حضرت اقدس مولانا الحاج محمد کامل صاحب کاندھلوی نور اللہ مرقدہ انھیں
پاکیزہ نفوس میں سے تھے، جنھوں نے مقصدِ حیات کو پوری طرح
سمجھا، خود بھی مسلسل اس کی تحصیل میں مشغول رہے، اور
دوسروں کے اندر بھی اُس کا شعور واحساس پیدا کرنے کی فکر میں
زندگی بسر کی، اتباعِ سنت اور تواضع وعاجزی ہے آپ کی ذاتِ
عالی میں کچھ اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ ایسا
لگتا تھا کہ گویا آپ کا خمیر ہی اتباعِ سنت اور تواضع سے
اٹھاہے، ایک ایک چیز میں سنتِ نبوی کی تلاش
وجستجو، اس کی کامل پیروی اور تبلیغ واشاعت ، اپنے اور
پرائے کا فرق کیے بغیر ہر وارد وصادر کے ساتھ حسنِ اخلاق اور نرمی
کا برتاوٴ ، انتہائی درجہ کی تواضع ، عاجزی اور انکساری
یہ وہ اوصاف ہیں جو دوسرے لوگوں میں خال خال ہی پائے جاتے
ہیں۔
مولانا موصوف شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین
احمد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ کے عاشقِ زار شاگردِ رشیدوخادمِ خاص،
اور فدائے ملت امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قدسرہ
کے خلیفہ، ایک صاحب ِ ارشاد بزرگ تھے، تقوی وپرہیزگاری،
صدق ودیانت ، اخلاص وللہیت، علم وعمل اور تصوف وسلوک میں اسلاف
کا نمونہ تھے۔
ولادت
آپ اپنے آبائی وطن علم وحکمت کی سرزمین
کاندھلہ کے محلہ ”گوجران“ میں ۱۹۳۳ء میں پیدا ہوئے (دن اور مہینہ معلوم نہیں
ہوسکا)، آپ نے جس گھر میں آنکھ کھولی وہاں کوئی خاص دینی
ماحول نہیں تھا، آپ کے والدجناب مشرف علی اگرچہ اپنی آخری
زندگی میں اچھے دین دار ہوگئے تھے؛ لیکن شروع میں
اُن کی دینی حالت کوئی زیادہ اچھی نہ تھی
، وہ پہلوانی کرتے تھے، اور بعد میں سرکاری ملازم بھی
ہوگئے تھے؛ البتہ آپ کی والدہ ایک نیک خاتون تھیں،حضرت کی
تعلیم وتربیت میں آپ کی والدہ ، حضرت کے تایاجان
اشرف علی اور دادا شمس الدین کا زیادہ دخل رہا۔ بچپن ہی
سے حضرت میں صلاح ونیکی اور ولایت وتقوی کے آثار
ظاہر ہونے لگے۔
تعلیم
ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے وطن کاندھلہ میں
حاصل کی، شروع میں حافظ عبد اللطیف صاحب کے پاس بھیجے
گئے، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد حافظ شریف احمد صاحب کے پاس ”مدرسہ نصرة
الاسلام جامع مسجد“ میں منتقل کردیے گئے،حافظ شریف احمد صاحب کے
پاس ہی آپ نے قرآن کریم کا ناظرہ اور حفظ ایک ساتھ مکمل کیا
۔ حفظ کی تکمیل کے بعد ،آپ نے ”مدرسہ نصرة الاسلام“ ہی میں
مولانا عبدالجلیل صاحب اور حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب دامت برکاتہم کے
پاس عربی سوم تک کی کتابیں پڑھیں۔اس کے بعد حضرت
مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی سابق شیخ التفسیر دار
العلوم دیوبند کے ایماء پر،شوال ۱۳۶۸ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں ، جب کہ آپ کی عمرپندرہ سال تھی، ازہر
ہند دار العلوم دیوبند تشریف لے گئے، اوروہاں مسلسل پانچ سال تعلیم
میں مشغول رہ کر ۱۹۵۲ء
میں ”دورہٴ حدیث شریف“ سے فراغت حاصل کی، آپ کے
رفقائے دورہٴ حدیث میں حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری
سابق شیخ الحدیث وقف دار العلوم دیوبند، حضرت مولانا زین
العابدین صاحب اعظمی سابق صدر شعبہٴ تخصص فی الحدیث
مظاہر علوم سہارن پور اور بحر العلوم حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی صدر
شعبہٴ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند خاص طور پر قابل
ذکر ہیں۔دورہ سے فراغت کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند کے شعبہٴ
تجوید میں داخلہ لیا؛ لیکن کسی عارض کی بناء
پر اس کی تکمیل نہ فرماسکے۔
اساتذہ
شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، شیخ
الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی،
مولانا حسین احمد بہاری، مولانا عبد الاحد صاحب اور حضرت مولانا نصیر
احمد خاں صاحب وغیرہ آپ کے خاص اساتذہ ہیں۔حضرت شیخ
الاسلام کے آپ خادم بھی رہے، یوں تو آپ کو اپنے تمام ہی اساتذہ
سے عقیدت ومحبت تھی؛ لیکن حضرت شیخ الاسلام سے آپ کی
محبت وعقیدت دیدنی تھی، بندے نے بارہا دیکھا جب بھی
آپ حضرت شیخ الاسلام کا ذکر کرتے تو فر طِ محبت سے آبدیدہ ہوجاتے تھے۔
تدریسی
خدمات
فراغت کے بعد، تجوید
کی تعلیم کا سلسلہ درمیان میں موقوف کرکے، ۱۹۵۲ء میں حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب
نور اللہ مرقدہ کے مشورے سے، ٹپرانہ (جو شاملی اورجھنجھانہ کے درمیان
روڈ پر ایک مسلم اکثریتی گاوٴں ہے) تشریف لائے،اور
پورے انہماک کے ساتھ مسلسل چودہ سال یہاں کی بڑی مسجد میں
امامت کے ساتھ، قرآن کریم کی تعلیم وتدریس ، وعظ وخطابت
اور تفسیرِ قرآن میں مشغول رہے۔
اس کے بعد ۱۹۶۷ء میں مہتمم کی حیثیت سے جامعہ بدر
العلوم گڑھی دولت (جو اس وقت ایک مکتب کی شکل میں تھا) میں
تشریف لائے، وہاں آپ نے قرآن کریم اور دینیات کی
تعلیم کے ساتھ فارسی وعربی کی تعلیم شروع فرمائی،
اور فارسی ، عربی اول ودوم کی تقریباً تمام کتابیں
مع کنزالدقائق اور جلالین شریف وغیرہ پڑھائیں۔
تلامذہ
آپ سے پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، جن میں
مولانامحمد ساجد صاحب استاذ تفسیر مظاہر علوم سہارن پور،مولانا محمد یعقوب
صاحب استاذ تفسیر مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد، مولانا شبیر احمد
صاحب استاذ ادب عربی مفتاح العلوم جلال آباد،مولانا محمد عاقل صاحب شیخ
الحدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت، مولانا محمد ہارون صاحب مہتمم
مدرسہ سبیل الرشاد سنولی ضلع پانی پت (ہریانہ)،مولانامحمد
شمشیر صاحب گڑھی دولت، مولانامحمد زبیر صاحب گڑھی دولت،
مولانا محمد زاہدصاحب مرحوم سابق مہتمم مدرسہ گل زار حسینیہ تیترواڑہ،
مفتی رفیق احمد استاذ حدیث مدرسہ مسیح العلوم
بنگلور(کرناٹک)اور مولانا محمد ارشد صاحب استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی
دولت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
بیعت
وخلافت
علومِ اسلامیہ کی
تحصیل کے ساتھ، ظاہر وباطن کی اصلاح نہایت ضروری چیز
ہے،قرآنی ہدایات اور اسلامی تعلیمات پر کما حقہ عمل،
عموماً اسی وقت ہوتا ہے جب کہ کسی صاحبِ نسبت شیخ کامل کے دست
حق پرست پر بیعت کرکے اپنے ظاہر وباطن کی اصلاح کرائی جائے۔
آپ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتے تھے؛ اس لیے علوم ظاہری کی
تکمیل کے بعدآپ نے اس طرف توجہ فرمائی، اور حضرت شیخ الاسلام
مولانا حسین احمد مدنی قدس سرہ سے اصلاحی تعلق قائم کرکے، حضرت
کی رہ نمائی میں راہِ سلوک طے کرنے میں مشغول ہوگئے؛ لیکن
ابھی سلوک وطریقت کی تکمیل نہ کرسکے تھے کہ حضرت مدنی
سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، حضرت مدنی کے وصال کے بعد آپ نے حضرت کے جانشین
فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی نور اللہ مرقدہ سے رجوع کیا،اور
باضابطہ بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت سے نوازے گئے۔ حضرت فدائے ملت کے
علاوہ حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم نے بھی آپ
کو خلافت عطا فرمائی تھی۔
جامعہ
بدر العلوم گڑھی دولت میں آمد
آپ کی دینی وملی خدمات ، صلاح ونیکی
، تقوی وطہارت اور تواضع وحسن اخلاق سے ٹپرانہ کے لوگ بہت زیادہ متأثر
تھے، وہ کسی بھی قیمت پر آپ کو چھوڑنے کے لیے تیار
نہیں تھے؛ لیکن خدائے پاک وبرتر کو آپ سے ایک بڑا کام لینا
منظور تھا، ہوا یہ کہ ٹپرانہ کے زمانہٴ قیام میں، کاندھلہ
سے قرابت داری کی وجہ سے آپ وقتاً فوقتاً گاوٴں گڑھی دولت
(جو کاندھلہ سے جانب مغرب تقریباً چار کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے)
تشریف لاتے اور یہاں کے لوگوں کو دینی مدرسہ کی
ضرورت کا احساس دلا تے رہتے تھے، جس کا اثر یہ ہوا کہ یہاں کے باشندوں
نے حضرت کی تحریک اور مشورے سے مورخہ ۱۴/ ذی الحجہ ۱۳۸۲ھ ، مطابق مئی۱۹۶۲ء میں بعض اکابر دار العلوم دیوبند کو بلاکر مدرسہ
کا سنگ بنیاد رکھ دیا؛چوں کہ اُن دنوں حضرت کے والد بیمار تھے؛
اس لیے حضرت اپنے والد کی تیمار داری میں مشغول
ہونے کی وجہ سے مدرسہ کے قیام کے پروگرام میں عملاً شرکت نہ
فرماسکے۔
مدرسہ کے ابتدائی دور میں متعدد اہلِ علم مدرسہ کے
انتظام وانصرام کے لیے تشریف لائے؛ مگر باشندگانِ گڑھی دولت کی
نظرشروع ہی سے آپ پر تھی، جس کی ایک وجہ تو یہی
تھی کہ آپ ہی یہاں مدرسہ کے قیام کے اصل محرک اور داعی
تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ لوگ آپ کی صلاح ونیکی،
تقوی وطہارت اور خدا داد فطری صلاحیت سے کافی حد تک واقف
ہوچکے تھے؛ چناں چہ ۱۹۶۷ء
میں مقامی لوگوں کا ایک وفد ٹپرانہ پہنچا ، اور بحیثیت
مہتمم وذمہ دار آپ کو گڑھی دولت لاکر مدرسہ آپ کے سپرد کردیا، پھر کیا
تھا، آپ نے نہ رات دیکھی نہ دن، نہ سردی دیکھی نہ
گرمی، رات دن مدرسہ کی ترقی کی فکر میں لگ گئے،
اوراپنی تمام تر محنتوں اور مجاہدوں کامرکز مدرسہ کو بنالیا، اور
مسلسل سینتالیس سال تک ایک مخلص اور کامیاب ذمہ دار
ومہتمم کی حیثیت سے مدرسہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔
حضرت کے سوزِ دروں،شب وروز کی انتھک محنت، اورمسلسل جد
وجہدکی برکت سے مدرسہ تعلیمی اور تعمیری ہر
اعتبارسے اب ایک بڑے جامعہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اپنے
اصول وضوابط میں دیگر مدارس سے ممتاز ہونے کے ساتھ، اس وقت ہندوستان
کے اہم اور بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے، اور نہایت حسن وخوبی کے
ساتھ دینی تعلیم وتربیت کی خدمت انجام دے رہا ہے۔
حضرت کے انتظام سنبھالنے کے بعد سے آج تک جامعہ ہذا نے جو علمی، دینی،
فکری، اصلاحی اور تربیتی خدمات انجام دی ہیں،
وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
جامعہ ہذا میں حفظ وناظرہ، تجوید وقراء ت، ہندی،
انگلش اور فارسی کے علاوہ، عربی اول سے دورہٴ حدیث شریف
تک نہایت ٹھوس اور معیاری تعلیم کا نظم ہے۔ دورہٴ
حدیث شریف شوال ۱۴۳۱ھ میں شروع کیا گیا تھا، جو بحمد اللہ پوری
کامیابی کے ساتھ علوم حدیث کی نشر و اشاعت کا ذریعہ
بنا ہو ا ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں ستر سے زائد طلبہ دورہٴ حدیث
سے فراغت پاکر، جامعہ سے سندِ فضیلت حاصل کرکے ملک وبیرون ملک میں
علومِ اسلامیہ کی خدمت واشاعت میں مصروف ہیں۔
اصلاح
وتربیت
آپ نے جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت میں لوگوں کی
اصلاح وتربیت کے لیے ایک خانقاہ قائم کی ، جس میں
ہزاروں گم گشتہ راہوں نے آپ کے حلقہٴ ارادت میں داخل ہوکر راہ پائی،اور
سلوک وطریقت کی منازل طے کی۔ بیعت اوراصلاحی
تعلق کا پورا فائدہ اُسی وقت ہوتا ہے؛ جب کہ مرید کا اپنے شیخ
سے رابطہ اور قوی تعلق ہو، حضرت نے اپنے منتسبین ومریدین
کی دینی رہ نمائی اور رابطے کے استحکام کے لیے
ماہانہ ”ذکر کی مجلس“ کا اہتمام فر مایا، جو کئی سالوں سے ہر
قمری ماہ کی آخری جمعرات کو منعقد کی جاتی ہے، قرب
وجور اور دور دراز سے حضرت کے متوسلین اس میں شرکت کرکے اپنی
روحانی واصلاحی قوت کو پروان چڑھا تے ہیں، ان مجالس سے علاقہ میں
بڑا فائدہ ہورہاہے۔ اس کے علاوہ ہر سال ماہ رمضان کے آخری عشرہ کے
اجتماعی اعتکاف کا بھی اہتمام فرما تے رہے ، اس میں بھی
آپ کے محبین ومتوسلین کافی تعداد میں شریک ہوکر ،
حضرت کے فیوض وبرکات اور ارشادات وہدایات سے اپنا دامن بھرتے تھے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ حضرت کے بعد حضرت کے جانشین
حضرت مولانا محمد عاقل صاحب مد ظلہ اعتکاف وماہانہ مجلس کے اس سلسلے کو نہ صرف یہ
کہ پوری قوت اور حوصلہ کے ساتھ جاری رکھیں گے؛ بلکہ اسے مزید
ترقی اور اوجِ کمال تک پہنچائیں گے۔
حضرت کا اندازِ اصلاح بڑا عجیب اور حکیمانہ تھا،کسی
کو کوئی خلافِ شرع کام کرتے ہوئے دیکھتے ، توایک دم سے اُسے نہیں
ڈانتے تھے؛ بلکہ بڑی حکمت کے ساتھ اس انداز سے اُس پر نکیر فرماتے کہ
وہ شخص بالکل برا نہیں مانتا تھا،اور فوراً اُس عمل سے توبہ کرلیا
کرتا تھا، بندے نے بارہا دیکھا کہ آپ کی نظر کسی کی کٹی
ہوئی ڈاڑھی پرپڑجاتی ، تو فرماتے :”بھائی دیکھو! کہیں
میری ڈاڑھی تو کٹی ہوئی نہیں“، کسی
کوپائجامہ یا لنگی ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے دیکھتے، تو
فرماتے ”دیکھو بھائی! شاید میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے
لٹکا ہوا ہے“۔ اللہ اکبر! کیا عجیب اور حکیمانہ انداز ہے
منکر پر نکیر کا۔ اللہ تعالی ہمیں بھی حضرت کے نقشِ
قدم پر چلنے کی توفیق فرمائے۔
حضرت
کے خلفاء
جن توفیق یافتہ حضرات نے حضرت کی خانقاہ سے
وابستہ ہوکر حضرت سے اکتسابِ فیض کیا، اُن میں سے بعض حضرات وہ
بھی ہیں جو حضرت کی نگرانی میں محنت ومجاہدے کے
ساتھ راہِ سلوک کی تکمیل کرنے کے بعد اجازت وخلافت کے مستحق قرار
پائے، اُن میں حضرت کے بڑے صاحبزادے وجانشین حضرت مولانا محمد عاقل
صاحب صدر المدرسین جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت،مولانا محمد ارشد صاحب
جوگی پورہ استاذ حدیث جامعہ بدر العلوم گڑھی دولت،حاجی
شاہ نظر صاحب مرحوم (چرھو)، میرے رفیق درس مولانا محمد شرافت صاحب
قاسمی خواج پوری اور استاذ محترم حضرت مولانا عبد الحق صاحب (لوئی)خاص
طور پر قابل ذکر ہیں۔مفتی محمد عباس صاحب بجرولوی اورقاری
محمد عرفان صاحب کیرانوی نے بھی آپ ہی سے بیعت ہوکر
راہ سلوک کی تکمیل کی؛ لیکن آپ نے غایتِ تواضع کی
وجہ سے اُن کو خود اجازت دینے کے بجائے، اپنے شیخ فدائے ملت حضرت
مولانا سید اسعد صاحب مدنی رحمہ اللہ سے اجازت دلوائی۔
اصلاح
معاشرہ کی تحریک
حضرت کو معاشرہ کی اصلاح ودرستگی کا بڑا فکر
تھا،علاقہ میں شادی بیاہ کی تقریبات میں
بردرانِ وطن کی دیکھا دیکھی بہت سی غلط اور خلافِ
شرع رسومات داخل ہوگئی تھیں،مثلاً لمبی لمبی بارات لے
جانا، نکاح سے ایک دن پہلے عام دعوت، جسے لوگ اپنی زبان میں
منڈھا کہتے ہیں،سلامی ، غیر محرم مرد وعورت کا اجتماع وغیرہ،
حضرت نے ان رسومات کو ختم کرکے خالص اسلامی طریقے پر شادی بیاہ
کرنے کے سلسلے میں ایک منظم تحریک چلائی، مختلف مقامات
پرپروگرام اور جلسے کیے، چھوٹے چھوٹے پمفلٹ چھپواکر تقسیم کرائے، اور
خود فرداً فرداً جاکر لوگوں کو سمجھایا، جس کا اثر یہ ہوا کہ علاقہ سے
کافی حد تک یہ رسومات ختم ہوگئیں اور اسلامی طریقے
پر شادی کا رجحان عام ہوگیا۔
حضرت
کا خاص وصف
یوں تو ہمارے حضرت کو اللہ تعالی نے ہرطرح کے ظاہری
وباطنی کمالات سے نوازا تھا؛ لیکن حضرت کا خاص وصف تواضع اور خوش
اخلاقی تھا، بڑے سے بڑا کام کرتے؛ لیکن اُس کی نسبت اپنی
طرف نہ کرتے ؛ بلکہ دوسروں کی طرف کرکے یہ فرماتے : ”بھائی! میں
تو کچھ بھی نہیں ہوں“۔ وہ اپنے چھوٹوں کو بھی اپنے سے بڑا
سمجھتے اوراونچے کلمات سے پکار تے تھے ، ایک موقع پر فرمایا : ”میرے
مدرسے میں جتنے بھی لوگ ہیں سب بڑے ہیں“۔
جو بھی آپ سے ملنے جاتا ، خواہ شناسا ہوتا یا اجنبی،
مسلمان ہوتا یا کافر، اُس سے ایسی خوش اخلاقی اور نرمی
سے ملتے کہ وہ سمجھتا کہ حضرت کو سب سے زیادہ تعلق اورمحبت مجھ ہی سے
ہے۔گرمی کی دوپہر میں پورا مدرسہ سوتا رہتا؛ مگر حضرت آنے
والے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لیے بیٹھے رہتے،کوئی دعا کی
درخواست کرتا، اُس کے لیے دعا فرماتے، کسی کو تعویذ کی
ضرورت ہوتی ، اُسے تعویذ دیتے، کوئی مسئلہ پوچھتا ، اگر
ذہن میں ہوتا بتادیتے ، ورنہ مدرسے کے کسی مفتی صاحب کے
پاس بھیج دیتے ، اور فرماتے کہ ”بھائی! میں مسائل نہیں
جانتا؛ مفتیانِ کرام مسائل جانتے ہیں، اُن سے پوچھو!“۔
وفات
اس طرح راہِ ہدایت کا یہ آفتاب تقریباً ۸۲ سال ضیاء پاشی کرتا ہوا، ۱۵/ ربیع الاول ۱۴۳۶ھ مطابق ۷/ جنوری
۲۰۱۵ء بروز بدھ، صبح سوا چھ بجے، طویل علالت کے بعد،”میرٹھ
کڈنی ہوسپٹل“ میں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ إنا للہ وإنا إلیہ رٰجعون
۔ جنازہ میرٹھ
سے کاندھلہ لایا گیا، اور اُسی دن ظہرکے بعد تقریباً ڈھائی
بجے، عیدگاہ کاندھلہ کے وسیع وعریض میدان میں، حضرت
کے استاذ حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم نے لاکھوں کے
مجمع میں آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی، اور کاندھلہ بائی پاس
روڈ سے تھوڑے فاصلہ پر”چار کھبوں“ کے سامنے خاندانی مقبرہ میں، آپ کی
تدفین عمل میں آئی۔
تواضع وانابت کا سرمایہ
دار تھا ، نہ رہا
وہ ایک زاہد شب
زندہ دار تھا، نہ رہا
$ $ $
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 2،
جلد: 99 ، ربیع الثانی1436 ہجری مطابق فروری 2015ء